جانے کیا کرنے آتی ہے نہر کنارے شام
روز اسے میرے رستے میں پڑ جاتا ہے کام
جانے کیا کرنے آتی ہے
دو رویہ پیڑوں کے جھرمٹ اور تمہاری یاد
پیار محبت کے پنچھی ہیں شاخوں پر آباد
عمر شرارت کر جاتی ہے موسم ہے بدنام
جانے کیا کرنے آتی ہے۔۔۔
ایک سڑک اک پل اک رستہ اور سر سبز کنارا
لہروں کی پریاں دیتی ہیں دل کو بڑا سہارا
تیز ہوا نے لکھ رکھا ہے گھاس پہ تیرا نام
جانے کیا کرنے آتی ہے ۔۔۔
ہم ہارے اور شام سمے کا منظر جیت گیا
یوں لگتا ہے پل دو پل میں جیون بیت گیا
خود کو مجرم ٹھہرائیں یا تم کو دیں الزام
جانے کیا کرنے آتی ہے۔۔۔
نہر کنارے شام۔۔۔
فرحت عباس شاہ