شبِ تنہا
ڈراتی ہے
تری یادیں
دیے ہاتھوں میں تھامے
دور سے آواز دیتی ہیں
ترا چہرہ سمے کی دھند سے لگ کر
مرے چہرے کو تکتا ہے
اور ایسے میں
خموشی کی اَنی دل اور جگر کو چیر جاتی ہے
شبِ تنہا ڈراتی ہے
پرایا شور
بستر کے تلے لیٹا
کسک ایجاد کرتا ہے
لگن بے چین کرتی ہے
جدائی بین کرتی ہے
تھکن
اعصاب میں سوئے ہوئے وحشی جگاتی ہے
شبِ تنہا ڈراتی ہے
شبِ تنہا ڈراتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)