شب غمزدہ
ذرا مسکرا کہ دیا جلے
یہ جو تیرگی ہے رکی ہوئی کئی دن سے یاد کے طاق میں
یہ چھٹے تو کوئی دکھائی دے
یہ جو سنگ و خشت پڑے ہوئے ہیں سماعتوں پہ سکوت کے
یہ ہٹیں تو کوئی سنائی دے
یہ جو دھول پھیلی ہے شہر میں یہ گھٹے تو کوئی سجھائی دے
شب غمزدہ
ذرا گنگنا کہ تھکن ڈھلے
یہ جو تھک تھکا کے پڑے ہوئے ہیں وفور شوق کے سلسلے
انہیں تازگی کی نوید دے
یہ جو کاروبار ہیں درد کے انہیں آپ آ کے خرید دے
شب غمزدہ
ذرا تھپتھپا
کہ کوئی تو گوشہء صبرِ دامنِ دل سلے
یہ جو دل ہے سینہء ہجر میں
ترا غم نصیب ہے عمر سے
یہ جو چشم نم سر انتظار کھڑی ہے راہ فراق کے کسی موڑ پر
تری ہم نفس ہے ستم زدہ
یہ جو لب ہیں چپ کی صلیب پر
ترے ہم قفس ہیں دیار جبر کے بے سراغ نواح ہیں
یہ جو دھڑکنیں ہیں عجیب سی
تری ہمرکاب میں برق زار ملال ہیں
یہ جو وہم سے ہیں خیال میں
ترے ساتھ ساتھ ہیں سب عروج و زوال میں
یہ جو خواب ہیں پس احتمال سراب کوچہ خام میں
کسی شام
کوئی بھی نام دے کے سمیٹ لے انہیں گود میں
یہ مہ و نجوم
جو آسماں سے اتر کے پلکوں پہ آ رکے ہیں
اداس دشت نورد کی
یہ نہ ہو کہ مانگ اجاڑ دیں ترے درد کی
یہاں گرد رہتی ہے ہر جگہ
ذرا ٹھہر جا
شب غمزدہ
ذرا ٹھہر جا کہ کوئی تو راہ میں آ ملے
شب غمزدہ
تجھے کیا خبر
جو ترس گیا ہو کسی کے شانہ عافیت کی پناہ کو
بھلا کب تلک کسی گور میں
وہ چھپا کے رکھے گا آہ کو
جو بہت ہی ٹوٹ گیا ہو اس کو گلے لگا
شب غمزدہ
اسے مسکرا کے گلے لگا کہ ہوا چلے
کوئی کھول در کوئی دن دکھا کہ تھکن ڈھلے۔۔۔ کوئی سکھ سنا کہ دیا جلے
شب غمزدہ
مری غمزدہ
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)