ڈوبتا جا رہا ہے نگر کا نگر دن نکلتا نہیں
رو رہی ہے سحر آنکھ کے اُس طرف رات کی قید میں
اور پریشان گم سم کھڑے ہیں شجر دن نکلتا نہیں
بزدلی کے سبب اتنی مہنگی پڑی رات سے دشمنی
بس گیا ہے اندھیروں سے اک ایک گھر دن نکلتا نہیں
کون وحشت کے ماتھے پہ چاندی لگانے کی جرات کرے
کون دل سے نکالے مقدر کا ڈر دن نکلتا نہیں
ایک خلقت کھڑی ہے تہہ سنگ احساس سود و زیاں
وا کیے ایک مدت سے آنکھوں کے در دن نکلتا نہیں
یہ بھی ممکن ہے اُس کو ابھی تک کسی نے بتایا نہ ہو
کوئی دے آئے سورج کو جا کے خبر دن نکلتا نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)