شدتیں

شدتیں
بے تحاشہ ہے تجھے یاد کیا
اور بھلایا بھی بہت ہے تجھ کو
ساری رونق ہی تیرے دم سے ہے
اور تِرے بکھرے ہوئے غم سے ہے
جس قدر
میں نے تعلق تِرا محسوس کیا
اتنی گہرائی تو روحوں میں ہوا کرتی ہے
جس قدر
میں نے تیری ذات کو خود میں پایا
اتنی یکتائی کہاں ملتی ہے
فاصلے وقعتیں کھو بیٹھے ہیں
دوریاں پھیکی پڑیں
اتنی شدت سے تجھے سوچا ہے
اتنی شدت سے تجھے چاہا ہے
شدتیں عشق کی معراج ہوا کرتی ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *