شہرِ امکان سے ڈر لگتا ہے

شہرِ امکان سے ڈر لگتا ہے
ہر بیابان سے ڈر لگتا ہے
جانے کب کونسا منظر جم جائے
چشمِ حیران سے ڈر لگتا ہے
قید ہو جاتی ہے اس میں تو انا
تیرے احسان سے ڈر لگتا ہے
اپنی بے چینی سے خوف آتا ہے
اپنے حیوان سے ڈر لگتا ہے
جانے کس سمت ہمیں لے جائے
جان پہچان سے ڈر لگتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *