کھنڈر میں آ گئے ہو کیوں تم اپنا رستہ بھول کے
یہاں جہاں پہ قافلوں کی گرد کا پڑاؤ ہے
جلے ہوئے خیام ہیں
کہانیوں کے اور قصہ ہائے ہست و بود کے
یہ دل صفت یہ جاں کے ہم مزاج گھر
یہ آنکھ کا نصیب لے کے آنے والے راستے
ہزار داستان بے زباں کے زخم زخم در
دریچہ ہائے زندگی مرے ہوئے
محبتوں کی خواہشوں کے اشتہار بھی یہاں تو
مدتوں سے راکھ کی نذر ہوئے ہیں
ہجر کی علامتوں کے کچھ نشاں رقم ہوئے مگر بہت ہی دھندلے
یہاں جہاں گری ہوئی چھتیں سروں کے اس قدر قریب ہیں
کہ کوئی بھی علم اٹھائے گا اگر
تو سٹپٹا کے خود ہی بیٹھ جائے گا
یہاں جہاں نہ خواہشیں نہ آرزو نہ خواب ہیں
نہ خوشبوئیں نہ پھول ہیں
نہ نقش ہیں جدائیوں کی دھول کے
کھنڈر میں آ گئے ہو کیوں تم اپنا رستہ بھول کے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)