شہر کے لوگوں کے ہاں عرصہ ہوا

شہر کے لوگوں کے ہاں عرصہ ہوا
آئینہ ہوتا تھا اک ٹوٹا ہوا
آدمی کہ دائرہ ہے عمر کا
گھوم پھر کر ہے وہیں پہنچا ہوا
یہ نہیں میرا لباس فاخرہ
کس نے لا رکھا ہے یہ چمکا ہوا
ایک شیشہ تھا تمہاری یاد کا
زندگی بیتی بہت دھندلا ہوا
راستوں کو راستوں کا خوف ہے
کون جانے ہے کہاں پہنچا ہوا
کیوں جرائم ہجر کے تم سے ہوئے
کیوں تمہارا آئینہ میلا ہوا
ہم نے تیرے ہجر میں رکھا سدا
دشت سا اک دور تک پھیلا ہوا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *