صداؤں کے بس میں کچھ نہیں ہے

صداؤں کے بس میں کچھ نہیں ہے
سکوت تم ہی یہ بھید کھولو
سکوت
تم کوئی بات بولو
کہو کہ کوئی گھٹن ہے اندر
گھٹن۔۔ کہ جیسے لبوں پہ کوئی جما دے جبراً ہتھیلیاں اور
دبوچ لے دل کے سارے موسم
کہو
کہ تاریک کوٹھٹی جو بجھے چراغوں کی بے بسی سے بسی ہوئی ہے
بسی رہے گی
سکوت تم کوئی بات بولو
کہو کہ جو لفظ کہہ نہ پائے
تمام تر ان کہی کہانی، کہانیوں کی خلش، خلش کی وہ کیفیت جو سکی سدھائے ہوئے پرندے کے بند پنجرے میں لوٹ آنے پہ چیختی ہے
کہو
کہ یہ ساری مسکراہٹ، یہ گیت، یہ بخت
اور ہماری یہ شان و شوکت
مکاں کی بیرونی تختیوں تک ہے
ورنہ دل کی ہر اک بغاوت ہر اک تگ و دو تو اپنے اوپر ہی سختیوں تک ہے
ہر تگ و دو
ہر اک مسافت
ہر اک ریاضت
سکوت
تم کوئی بات بولو
یہ بھید کھولو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *