وہ تو دوستوں میں چھپا ہوا ہے یہیں کہیں
کسی بے قراری سے بل پڑا تھا خیال میں
نہ تو کج ادائی گئی، نہ دل کو سکوں ملا
مجھے آج تک ترا انتقال نہ مل سکا
میں پڑا ہوا ہوں صدی صدی ترے موڑ پر
یہ جو اک خلش ہے زمانے بھر کی خراش میں
یہ خراش موت کی اور خلش ہے نصیب کی
ہمیں اپنی آنکھ پہ شک ہے اس لیے رات دن
تجھے تیری آنکھ سے دیکھنے کی سعی میں ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)