اے مری بے اختیاری لوٹ آ
آ مری بانہوں میں بانہیں ڈال
اور یوں رقص کر
جس طرح کوئی دوانہ شخص مرشد کے حضور
دل کی وحشی دھڑکنوں کی تال پر
مست ہو جائے لہو کی چال پر
آ مری آنکھوں میں پھیلے
سرخ ڈوروں میں کسی کو عکس کر
نام لکھ اس باعثِ ادراک کا
اے مری بے اختیاری لوٹ آ
کچھ بھرم رکھ دامنِ صد چاک کا
کھول دے ہر ایک رستہ موسمِ نمناک کا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)