اب کوئی سنگِ ملامت ہی نہ رکھا جائے
ہاتھ بڑھ آئے نہ کوئی کہیں ایوانوں تک
شہر میں جرم بغاوت ہی نہ رکھا جائے
رات کے پیڑ ہیں یہ ان کے تنوں سے لگ کر
صیغہِ مشق و ریاضت ہی نہ رکھا جائے
عشق دیوانہ و بے عقل ہی اچھا ہے سو اب
دعویٰ، فہم و فراست ہی نہ رکھا جائے
اپنے دامان و گریباں کو بچانے کے لیے
شوقِ اخلاص و عنایت ہی نہ رکھا جائے
اور بڑھ جاتا ہے احساس زیاں سینوں میں
سلسلہ ہائے حکایت ہی نہ رکھا جائے
اپنا اس آتش تاریک تلے کیا ہو اگر
سایہ نور و ہدایت ہی نہ رکھا جائے
فرحت عباس شاہ