جانے کس کے زخمی دل میں گھونپ دیا ہے
آخر کو تھک ہار کے جاناں
میں نے اپنی ویراں آنکھیں
بنجر خواہش
اور یادوں کے زرد صحیفے
پھینک دیے ہیں
اپنی ذات پہ جبر کے گہرے غاروں میں
اور اک باقی ماندہ صحرا
سپنوں کی نگری سے کوسوں دور کھڑے
اک پیاسے شخص کو
سونپ دیا ہے، ہم کیا جانیں
ظالم وقت نے چاہ کے لاحاصل کا خنجر
آخر کس کے زخمی دل میں گھونپ دیا ہے
فرحت عباس شاہ