خیال خام میں پنہاں کبھی کبھی تم تھے
نصیب میں نہ رہا والہانہ پن تو کیا
دبے دبے ہوئے انداز اب بھی باقی ہیں
ہمیشہ ہم سے تری دھوپ نے ردا چھینی
وگرنہ گرمی دنیا و دین کچھ بھی نہ تھی
ترے سفر کی مہارت پہ اعتماد نہ تھا
کچھ اس لیے بھی تجھے ساتھ ساتھ لے کے چلے
زمانے بھر کے مصائب کی بات کرتے ہو
تمہیں تو اپنے مسائل سے ہی نہیں فرصت
جو اختیار کیا پیشہ ستم اس نے
تو ہم نے بار خدا اہتمام صبر کیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)