تڑپ رہا ہے کوئی بار بار جذبوں میں
یا کائنات کے دکھ مجتمع ہوئے ہیں یہاں
یا رو رہا ہے دلِ زار زار جذبوں میں
مرے علاوہ یہاں کون اضطراب میں ہے
کسے کہوں کہ نہ ہو بے قرار جذبوں میں
کٹے پھٹے کئی دھاگے نظر میں پھیل گئے
ردائے صبر ہوئی تار تار جذبوں میں
فضائے ذات میں بستی سی بن گئی ہے کوئی
اڑائی کس نے پرندوں کی ڈار جذبوں میں
مرے خدا یہ فصیلیں سی کھینچ لے یا پھر
کہیں سے کوئی تو رشتہ اُتار جذبوں میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)