میں محبت کرنے نکلا
میں نے دیکھا وہ گلی جس میں میرا گھر ہے
بڑی ویران گلی ہے
گلی کے ہر گھر کے ہر دروازے پر
شکست لکھی ہے
مجھے لگا جیسے میں کسی مفتوح شہر میں آگیا ہوں
عذابوں کے ہاتھوں مفتوح شہر
ہر دروازے پر شکست لکھی تھی
اور شکست سے قید جھانکتی تھی
اور قید میں زندگی سسکتی تھی
زندگی سسکتی تھی
اور سکتہ طاری ہو جاتا تھا
زندگی سسکتی تھی
اور خاموش پھیل جاتی تھی
پھر میں آگے روانہ ہوا
اور چونک گیا
ہر گلی ہی ایسی تھی
ہر گھر، ہر دروازہ ہی ایسا تھا
میں نے ایک دروازے سے کان لگا کے سنا
اندر سے کسی کے کھانسنے کی آواز آئی
اور ساتھ ہی خون اگلنے کی
میں کانپ گیا
خون کی بُو میرے نتھنوں سے ہوتی ہوئی
میرے وجود میں اتری
اور یوں لگا
جیسے کسی نے شریانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو
میں نے ایک اور گھر کے دروازے سے کان لگا کے سنا
کوئی بڑبڑارہا تھا
کسی شدید خوفزدہ مظلوم کی طرح
شدتِ خوف کی وجہ سے
جس کے منہ سے کچھ بھی ٹھیک طرح نہ نکل رہا ہو
لایعنی بڑبڑاہٹ، بڑبڑاہٹ، گو، لا یعنی تھی
پھر بھی دیوار کے اندر اتر رہی تھی
اور دروازہ چیرتی جا رہی تھی
پھر میں ایک اور دروازے سے لگا
اندر سے آنے والے بین صاف سنائی دے رہے تھے
وہ بین ہی تھے
لیکن بہت مختلف
بالکل اور طرح کے
جیسے بہت سارے میّت مل کے
کسی زندہ آدمی پر بین کر رہے ہوں
اس کی زندگی پر
اس کے جیون پر
بین بھی
اور ماتم بھی
اگلے دروازے سے کان لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑی
کھلا دروازہ،
بلکہ ٹوٹا پھوٹا بے کِواڑ دروازہ
اور خاموشی،
گہری اور بوجھل خاموشی،
موت کی سی
فرحت عباس شاہ