یہ صحنِ دل میں بھلا کس یقیں کی لاش آئی
یہ کن دعاؤں کے نیزے بھلا ترازو ہیں
اُداس سی کسی معصومیت کے سینے میں
ابھی ابھی تو نئی زندگی کی خواہش نے
ڈرے ڈرے ہوئے لہجے میں گنگنایا تھا
ابھی ابھی تو کسی صبح کے بسیرے میں
کوئی ملول پرندہ کہ اک سکوت میں گم
نہ جانے کیسی صدی بعد پھڑپھڑایا تھا
ابھی تو اچھی طرح سر خوشی کے رنگوں میں
دُہائی۔۔۔۔۔ہاتھ بھی پیلے ہوئے نہ تھے دل کے
ابھی تو کچے تھے سب رنگ کہکشاؤں کے
یہ کیسا کرب تہہِ اعتماد بپھرا ہے
یہ کیسی آگ سرِ آشیاں نہائی ہے
ہواؤ بین کرو مل کے آرزوؤں سے
صداؤ ڈوب کے ابھرو لہو کے دریا سے
وفاؤ اور ذرا ماتمِ وفاداری
کہ ہم پہ فرض ہے اب عمر بھر عزاداری
فرحت عباس شاہ