خواب در خواب ٹھہر جاتے ہیں
آنکھ بھر جاتی ہے جب اشکوں سے
ہم تہہِ آب ٹھہر جاتے ہیں
اب تو زرخیز زمیں پر اپنی
آ کے سیلاب ٹھہر جاتے ہیں
یاد آتے ہو تو چلتے چلتے
ہم سے بے تاب ٹھہر جاتے ہیں
درد چل پڑتا ہے جب تیری طرف
آنکھ میں خواب ٹھہر جاتے ہیں
یوں تڑپ کر کوئی دل رکتا ہے
جیسے بے تاب ٹھہر جاتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)