صورتِ ماہی بے آب گرا
تیرے دل سے مری چاہت نکلی
میری آنکھوں سے ترا خواب گرا
چاندنی میری گلی تک آئی
اس کی دہلیز پہ مہتاب گرا
آبشاریں ہیں کہ آنکھیں اپنی
گود میں پھر کوئی سیلاب گرا
موسمِ اشک پلٹ کر آیا
گل کے رخسار پہ سیماب گرا
مستقل حوصلہ رکھ، بڑھتا جا
اس قدر جلد نہ اعصاب گرا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)