علموں بس کریں او یار

علموں بس کریں او یار
ہم کے ٹوٹے ہوئے، بکھرے ہوئے سورج کے پجاری اب بھی
ہاتھ میں شام کا انجام لیے
آنکھ میں روح کا ابہام لیے
خوف کے خواب کی خلوت میں کوئی نام لیے
جرات ناکام لیے گھومتے ہیں
آج بھی چومتے ہیں ٹوٹ کے بکھرے ہوئے انگاروں کو
اور جلا بیٹھتے ہیں اپنی عقیدت کے گلاب
اب بھی ہم
ایک صحرا میں سلگتے ہوئے کچھ سرخ اندام سرابوں کی طرف بھاگتے ہیں
رات دن جاگتے ہیں نقش گمنام لیے
اور نہیں دیکھتے کون آ کے چھپا بیٹھا ہے کس رنگ میں کیا دام لیے
اپنے اکھڑے ہوئے کندھوں پہ در و بام لیے دوڑتے ہیں آج بھی ہم
ہم کہ ٹوٹے ہوئے بکھرے ہوئے سورج کے پجاری
اب بھی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *