دیر تک اسپ اجل کی ٹاپ سی آتی رہی
خوف ایسا تھا کہ لرزش بولتی تھی سانس میں
برف ایسی تھی لہو سے بھاپ سی آتی رہی
خواب میں پھولوں کا جنگل سا نظر آیا مگر
رات بھر خوشبو ہمیں کچھ آپ سی آتی رہی
تیرے آ جانے کے موسم نے ہمیں پاگل کیا
وہم یوں ٹھہرا کہ کوئی چاپ سی آتی رہی
بج رہا تھا جانے کس بچھڑے ہوئے پل کا سرور
عمر بھر کانوں میں کوئی تھاپ سی آتی رہی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)