غریبی

غریبی
درد کی بارہ دری
دل پرندوں کی طرح اڑتا پھرے
شہ نشینوں میں پڑے ہجر کے تنکے
کسی ویران نشیمن کے مکیں لگتے ہیں
بے قراری کسی چلمن کی طرح
اپنے ہی خالی خلاؤں سے لگی بیٹھی ہے
مورچھل سانس کے اندر ہے کوئی
سانس سے آتی ہے بے رنگ پروں کی خوشبو
گردشیں اپنی غلامی سے اٹی ہیں اب تک
سارے اس خواب سے لگتا ہے مجھے
ہم محلات میں اجڑے ہوں گے
شاہ زادی بھی کوئی ہوگی
کنیزیں بھی کہیں ہوں گی
جو اب بھی اکثر
بجتی رہتی ہے لہو میں کوئی سرگوشی سی
ہجر زادوں کے نصیبوں کی طرح
تخت خالی ہوں تو پھر بخت بدل جاتے ہیں
آگ زائد ہو تو لوہے بھی پگھل جاتے ہیں
ہائے غربت تری دلداری کروں یا نہ کروں
تجھ سے میں زندگی اب پیاری کروں یا نہ کرو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *