ہم نے تمہاری یاد منائی تمام شب
زخموں نے دی اگرچہ دہائی تمام شب
لیکن کسی کو دی نہ سنائی تمام شب
اک صحنِ دل تھا چھوٹا سا فرحت مِرا جہاں
ویرانیوں نے خاک اڑائی تمام شب
آنکھوں نے روتے روتے سمندر بہا دئیے
لٹتی رہی ہے یوں بھی کمائی تمام شب
صبح ہوئی تو راکھ بھی باقی نہ تھی کہیں
یوں دکھ نے دل کو آگ لگائی تمام شب
اک یاد تھی جو ہم نے جلائی تمام شب
پھر اس کے بعد نیند نہ آئی تمام شب
یہ اور بات آنکھوں میں رخنے سے پڑ گئے
اشکوں نے دوستی تو نبھائی تمام شب
تڑپا کیا ہر ایک بنِ مُو تلک جہاں
اک بزم بے کلی نے سجائی تمام شب
دل اسپِ بے قرار بنا بھاگتا رہا
اک پل بھی سکھ نے دی نہ رہائی تمام شب
ہنستا رہا سکوت مرے حالِ زار پر
روتی رہی تمہاری جدائی تمام شب
دل کی خلش نے ایک نہ مانی اگرچہ میں
دیتا رہا ہوں اپنی صفائی تمام شب
فرحت عباس شاہ