ہم سفر
آ راہ کے کانٹے چنیں
گر اسی میں کچھ سفر طے ہو گیا تو
اک غنیمت جان لیں گے
مان لیں گے کچھ سفر طے ہو گیا ہے
ورنہ ان راہوں میں تو اک خار کی تلوار بھی
کچھ کم نہیں ہے
ایک منزل اور پڑاؤ ان گنت
اک پڑاؤ اور ہزاروں منزلیں
رنگ، خوشبو، چھاؤں، یخ بستہ شجر کا
اور سکوں کا کیوں کوئی دھوکہ سہیں، سپنے بنیں
لاشعوری بے قراری
جسم کے گھاؤ سے بدتر ہے
کبھی تو آ
کھلی دیوانگی سے
دوسروں کے ساتھ اپنی بھی سبھی چیخیں سنیں
ہم سفر آ راہ کے کانٹے چنیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)