تیز بارش کی شکایت پہ اگر کان دھروں
عہد و پیماں تو مقدر ہو جائیں
وقفے وقفے سے اتر آتے ہیں بے چین خیالات
دم رخصت بھی
جنگلوں میں بھی تری یاد چلی آئی ہے
غم سے کیا شکوہ کریں
چاہے لحد تک آجائے
سرد مہری کسی میت کی طرح
برف کی برف کا دکھ دیتی ہے
انگلیاں شہر میں اٹھتی ہیں تو یکلخت ہنسی آتی ہے
کوہ ساروں کی بروں بینی سمندر سے بھی گہری ہو مگر
بحر پر نم کی دروں بینی بھی آخر کچھ ہے
رات گہری ہو تو دل اور بھی گہرا ہو جاتا ہے بے نور مقدر کی طرح
ہم نے تقدیر کے ہاتھوں میں دعا دی ہی نہیں
کوئی ویران اگر ہے تو سدا باغ کی حسرت میں رہے
ہم تو آنسو سے کئی کام لیا کرتے ہیں
دل پہ گر کر اسے کچھ حوصلہ ہی دے آئے
دن کو تاریکی بہت تھی مگر اے عالمِ غم
تیرے ہر غم میں ہوئے ہم بھی برابر کے شریک
پھر بھی ہم جانتے ہیں، مانتے ہیں
غم کے کچھ اپنے بھی حالات ہوا کرتے ہیں
فرحت عباس شاہ