ذرا ذرا سی کسک بھی سنبھال رکھتے تھے
عجیب طرز کے شدت پسند تھے ہم بھی
خوشی خوشی میں کئی غم بھی پال رکھتے تھے
بس ایک اس کے خیالوں میں قید رہنے کو
کئی خیال بہانے سے ٹال رکھتے تھے
وہ بھولپن تھا کہ ہر دوسرے ستم گر کا
ہم اپنے آپ سے زیادہ خیال رکھتے تھے
اسی لیے میں ترا شہر چھوڑ آیا تھا
وہاں کے لوگ دلوں میں ملال رکھتے تھے
فرحت عباس شاہ