او میرے یار
ہوا جب سے
محبت پیار
کا کاروبار
ہے دل بیزار
بہت بیمار
کہ یہ بیوپار
ہمیشہ ہی
بنا دیوار
ہوئے ہیں خار
گل و گلزار
ہوئے انکار
سبھی اقرار
ہے پہلو میں
دکھوں کی ڈار
لب منجدھار
نہیں پتوار
مری سرکار
مرے دلدار
ترے صدقے
ہزاروں بار
میں تم پہ وار
کرا دیدار
لگا دے پار
ہوئے لاچار
بنا اظہار
ہر اک چارہ
ہوا بے کار
ہر اک دامن
ہے تار و تار
کہ ہوں تیرا
گناہ گار
نہ کوئی کام
نہ کوئی کار
تو کافی ہے
تو شافی ہے
تو الباسط
تو الباعث
تو الباقی
تو الباری
تو الوالی
تو الہادی
تو خالق ہے
تو مالک ہے
تو القابض
تو الخافض
تو الواجد
تو الماجد
تو الجامع
تو المانع
تو النافع
تو المومن
تو الباطن
مقدم تو
مؤخر تو
تو سلطاں ہے
تو رحماں ہے
تری راہیں
مری چاہیں
تری ہستی
مری بستی
تری ہستی
مری مستی
دعاؤں کو
وفاؤں کو
صداؤں کو
فضاؤں کو
خلاؤں سے
بلاؤں سے
رہائی دے
سنائی دے
دکھائی دے
سجھائی دے
کہ ہٹ جائے
ہر اک پردہ
کہ چھٹ جائے
ہر اک بادل
او میرے یار
مرے دلدار
مری سرکار
مرے سردار
بدل دے جیت
میں میری ہار
تو پالنہار
تو پالنہار
فرحت عباس شاہ