تجھے میری سمندر آشنا آنکھوں میں صحرا کیسے لگتے ہیں
مرے آنسو
مری پیاسی تمنائیں
مرے سپنے
اور ان کا دکھ
تو میرے حال سے ہے جس قدر واقف
فرازینہ
میں تیرے حال کا محرم
خود اپنے ہاتھ سے لکھی کتابوں سا
میں تیرے درد سے واقف
خود اپنی آنکھ میں آباد خوابوں سا
میں تیری روح کے اندر
فضاؤں میں سحابوں سا
فرازینہ!
تجھے میرے لیے کوئی پرانا خواب
دکھ سے کھینچ لایا ہے
پرانے خواب بھی درویش ہوتے ہیں
ولی
ساحر۔۔۔
ریاضت ان کے اندر قوتیں بیدار کردیتی ہیں حاصل کی
یہ تعبیروں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں زخموں میں
میں تیرے ساتھ جتنے سال جاگا ہوں
یہ شب بیداریاں میری عبادت ہیں
یہ جیون جس قدر کم ہے
مجھے سونے سے نفرت ہے
میں سوجاؤں
ترا سپنا نہ آئے
تو فرازینہ
یہ سونا موت ہے
اور موت بھی یونہی بلا مقصد
کہ مقصد ہو تو مرنا
فرد کو مرنے نہیں دیتا
ہم لوگ کبھی تیرے طلبگار نہیں تھے
پھر سے کسی بطربادی کو تیار نہیں تھے
تم آئے تو ویرانی نے ہنس کر ہمیں دیکھا
اور بولی کہ اب بولو! یہ آثار نہیں تھے
اک شخص تھا اس شخص کا سایہ نہ تھا کوئی
اک خواب تھا اس خواب کے اشجار نہیں تھے
تو نے کوئی بھیجا تھا مجھے شہر تمنا
ایسا کہ جہاں پھول تھے اور خار نہیں تھے
اک ایسا زمانہ تھا فرازینہ کہ جب ہم
صدیوں کی جدائی سے بھی بے زار نہیں تھے
اب وہ بھی ہمیں پوچھتے پھرتے ہیں نگر میں
جو لوگ کبھی غم کے روا دار نہیں تھے
فرازینہ
ہماری روح بے چہرہ تمنا کی اجارہ داریوں سے تھک چکی ہے
اور سمجھتی ہے تھکن کچھ بھی نہیں ہوتی
یہ کیسی خود فریبی ہے
کہ بیماری خود اپنے کو دوا سمجھے
ہمیں لاچاریوں کی پردہ داری کی مصیبت ہے
بھرم کو ہم سمجھتے ہیں کہ سارا کچھ یہی تو ہے
مگر جب ہڈیوں میں وائرس گھاتیں لگا بیٹھے
وریدوں میں کئی ناسور آ ٹھہریں
لہو میں ان گنت سرطان جم جائیں
فرازینہ تو پھر کیسا بھرم
کیسی رواداری
میں تیری روح کے گن سے ڈرا ہوں
اور تری آنکھوں کی ویرانی سے مجھ خوف آیا ہے
ابھی تک تو نے اپنے زخم گننے
اور جلا دینے نہیں چھوڑے
ابھی تو بیچ چوراہے پہ لٹ جانے کے صدمے میں مقید ہے
فرازینہ یہ دنیا بے مروت ہے
ہمیں پہچانتی ہے، مانتی ہے، بھول جاتی ہے
ہماری بے کلی بھی جانتی ہے چھوڑ دیتی ہے
فرازینہ
دعاؤں میں گڑے بیزوں کو باہر کھینچ لے
ہم آ گئے ہیں
ہم ترے صدموں کی پیشانی پہ اپنا ہاتھ رکھیں گے
فرازینہ
یقیں اور بے یقینی تو مری جاں عشق کا پہلا سلیبس ہے
تجھے بے اعتمادی، بے یقینی اور وفاداری پہ شک
اپنی بقا کا سلسلہ محسوس ہوتے ہیں
تو یہ سب کچھ ترے برباد ماضی کی بدولت ہے
اور اس ساری کہانی میں عجب یہ ہے
تری بے اعتمادی اور مرے جذبوں پہ شک
میرے لیے ایمان بنتی جا رہی ہیں
جب تو کہتی ہے کہ یہ سب کچھ تجھے محفوظ رکھتا ہے
میں کہتا ہوں ترے دل کا تخفظ سب سے پہلے ہے
مگر جاناں
یہاں اک اور بھی دنیا ہے باطن کی
کہیں بھی عشق اور ایمان میں دوئی نہیں ہوتی
میں اپنے عشق پر ایماں نہ لاؤں کیسے ممکن ہے
میں اپنی سرسری خواہش کی خاطر
اپنے دل کے سچ کو جھٹلادوں۔۔۔؟
دکھوں کے خوف سے مذہب بدلنا
چاند کاماتھا بجھانا ہے
مرے دل میں تری ویرانیوں کا غم چمکتا ہے
مرے دل میں تری حیرانیوں کا شہر روشن ہے
مرے آنگن میں تیرے وسوسوں کی بیل اگ آئی ہے
لیکن دکھ نہیں دیتی
فرازینہ اگر بے اعتمادی
درد کے لمحوں میں تجھ کو تھام لیتی ہے
تو اچھا ہے
مگر یہ بھی تو دیکھو
میرا تیری ذات پر ایمان ہر اک گام تیرا نام لیتا ہے
مرے جیون کا ضامن ہے
فرازینہ
محبت چاند کا سپنا نہیں ہوتی
کہ آنکھوں میں روپہلی نیند کی چاندی چھلک جائے
یہ گندم بھی نہیں ہوتی
کہ دھرتی کو سنہری رنگ کی بستی بنا ڈالے
یہ بچہ بھی نہیں ہوتی
کہ اپنی بے سروپا خواہشوں سے اور خوابوں سے
بہت سی چھوٹی چھوٹی، ٹوٹی پھوٹی
بے ریا معصوم باتوں
اور ہواؤں اور سحابوں سے
دلوں کے زخم بھر ڈالے
محبت درد کا کردار ہوتی ہے
محبت نا سمجھ سردار ہوتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے
محبت ہار ہوتی ہے
فرازینہ
اگر آنکھیں ادھوری ہوں
تو سپنے زندگی بھر بھی مکمل ہو نہیں سکتے
اور ایسے میں
اگر راتیں ادھوری ہوں
اگر باتیں ادھوری ہوں
اگر جیتیں ادھوری ہوں
اگر صحراؤں کی قسمت کی برساتیں ادھوری ہوں
ہزاروں کوششیں کر لو
مکمل کچھ نہیں ہوتا
فرازینہ
ادھورا پن کہیں تقدیر میں لکھا گیا ہے
اور تو نے جو تعلق مجھ سے جوڑا ہے
ادھورا بھی نہیں شاید
یہ پورے زخم کی دہلیز پر بے کار ہوتا ہے
یہ پورے سات رنگوں میں بڑا بے رنگ نکلا ہے
تجھے طعنوں سے فرصت ہی نہیں ملتی
وگرنہ اک تعلق ہی تو ہے باقی
تجھے اب تک نبھانا آ گیا ہوتا
تعلق ہی تو ہے یہ تُو جسے بھٹکائے پھرتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)