روز کچہری ہو جاتی ہے
تیرا سپنا آجانے سے
رات سنہری ہو جاتی ہے
دل ہو جاتا ہے دیہاتی
خواہش شہری ہو جاتی ہے
تہہ در تہہ بے چینی میری
ایک اکہری ہو جاتی ہے
رخساروں پر پڑنے والی
مٹی نہری ہو جاتی ہے
سچی بات کروں تو مولا
دنیا بہری ہو جاتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)