سر جھکا کر چلتے چلتے گردنیں خمیدہ ہو گئی ہیں
بوجھ اٹھا اٹھا کر کمریں
کچی اور ٹوٹی پھوٹی گلیوں سے آیا ہوں
میل اور کیچڑ سے ناراض ہوا، وقت نے اٹھا کر باہر پھینک دیا
وقت کسے پسند کرتا ہے آج تک معلوم نہیں ہو سکا
بعض اوقات بڑی بڑی شاہراہیں اور پختہ سڑکیں بھی دیواریں ثابت ہوتی ہیں
اب سفر ٹانگوں کے بل طے نہیں ہوتا
منزلیں، حوصلے اور ثابت قدمی سے حاصل نہیں ہوتیں
مسافتیں صرف گردنوں کی چال پر معلق ہیں
جھک جائیں تو منازل طے
ورنہ زمین ہی نہیں چھوڑتی
کاش کاش میں خمیدہ گردن والا ہوتا
بونے اور کوتاہ قامت در کتنے آسان ہو جاتے
کمر خمیدہ ہوتا تو نا خداؤں کی ٹانگوں کے نیچے سے گزر کر بہت بلندی پر پہنچ جاتا
آسمان کی نفرت اور موت کی ہنسی کی پرواہ کون کرتا ہے
فطرت کس کی حمایت کرتی ہے؟
وقت کسے پسند کرتا ہے؟
آج تک معلوم نہیں ہو سکا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)