تم مرے کون ہوا کرتے ہو
اس سے امید لگا بیٹھے ہیں
جس کو خود سے کوئی امید نہیں
نامرادی وہ شجر ہوتی ہے
جس میں بس چھاؤں کا شک رہتا ہے
احتراماً تری بربادی میں
ہم نے کچھ خود سے اضافہ نہ کیا
ہم نے پلکوں سے ترا نام لکھا
اپنی تنہائی کے دروازوں پر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)