کاٹ دے رات اندھیر وے سانول

کاٹ دے رات اندھیر وے سانول
کاٹ دے رات اندھیر وے سانول
دیکھیں لوگ سویر وے سانول
حوصلے والی ہمت والی
اب وہ پہلی بات نہیں ہے
اب تو درد سمندر بن کے
ٹوٹی پھوٹی کشتی جیسا
دل لیتا ہے گھیر وے سانول
شام ڈھلے تھک ہار کے یادیں
دل کے گھر میں لوٹ کے آئیں
اپنے اپنے دیپ جلائیں
آدھی آدھی رات کو اٹھ کر
دکھ لیتے ہیں گھیر وے سانول
ہاتھ میں دل کا ہاتھ نہیں ہے
سفر بہت لمبا ہے لیکن
اپنا آپ بھی ساتھ نہیں ہے
ایسے عالم میں تو اکثر
ہو جاتی ہے دیر وے سانول
میں چاہوں اور تو نہ چاہے
زخموں پر زخموں کے پھاہے
قدم قدم پر دو دو راہے
ہاتھ پاؤں میں چکر ہے یا
سب قسمت کا پھیر وے سانول
کاٹ دے رات اندھیر وے سانول
دیکھیں لوگ سویر وے سانول
فرحت عباس شاہ
(کتاب – من پنچھی بے چین)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *