اے عشق مجھے آزاد کرو
تمہیں کس نے کہا تھا دل والو
یوں رو رو کر فریاد کرو
میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں
مجھے جی بھر کے برباد کرو
میں مٹی کا مادھو مولا
کوئی درد مری بنیاد کرو
جسے عشق اجاڑ کے پھینک گیا
اس بستی کو آباد کرو
کب میں نے کہا مجھے فرحت
ویرانی کا داماد کرو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)