کب تک مری خاموشی سنبھالے گا سمندر

کب تک مری خاموشی سنبھالے گا سمندر
اک روز مری لاش اچھالے گا سمندر
اک روز ہوا وقت میں بھر جائے گی یارو
اک روز یہ پتھر بھی اٹھا لے گا سمندر
جو کچھ بھی ہوا چین سے ٹکنے کا نہیں ہے
جو کچھ بھی ہوا تہہ میں نکالے گا سمندر
ممکن نہیں تا عمر رہے جاری تنازعہ
یکطرفہ ہواؤں کو منا لے گا سمندر
طغیانی کی تقریب منانے کو کسی دن
ٹوٹے ہوئے تختوں کو سجا لے گا سمندر
آنے کو جہاں کوئی نہ جانے کے لیے ہو
اس ساحلِ برباد سے کیا لے گا سمندر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *