دلِ سوختہ
کبھی بول بھی
جو اسیر کہتے تھے خود کو تیری اداؤں کے وہ کہاں گئے
جو سفیر تھے تری چاہتوں کی فضاؤں کے وہ کہاں گئے
وہ جو مُبتلائے سفر تھے تیرے خیال میں
وہ جو دعویدار تھے عمر بھر کی وفاؤں کے وہ کہاں گئے
کبھی کوئی راز تو کھول بھی
کبھی بول بھی
دلِ نا خدا
کبھی بول بھی
جو ترے سفینہِ درد و غم کے سوار تھے
جو ترے وظیفہِ چشمِ نم پہ نثار تھے
وہ جو ساحلوں پہ اُ تر گئے تو پھر اُس کے بعد پلٹ کے آئے کبھی نہیں
تری لہر لہر پہ جن کے نقش و نگار تھے
کسی دن ترازوئے وقت پر اُنہیں تول بھی
کبھی بول بھی
دلِ بے نوا
کبھی بول بھی
وہ جو تیرے نغمہِ زیرو بام کے امین تھے
جو ترے طفیل بلندیوں کے مکین تھے
و ہ جو معترف تھے تری نگاہِ نیاز کے
تمہیں جن پہ سو سو یقین تھے
وہ چکا گئے تیرا مول بھی
کبھی بول بھی
کبھی بول بھی، دلِ سوختہ، دلِ نا خدا، دلِ بے نوا، کبھی بول بھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)