کبھی جو سیر کو وہ خوابِ خوش بدن نکلے

کبھی جو سیر کو وہ خوابِ خوش بدن نکلے
تو ساتھ گھر سے ہی اس کے کوئی چمن نکلے
یہ دیکھتے ہیں کہ تقدیر کس پہ ہنستی ہے
لُٹے ہوؤں کے تعاقب میں راہ زن نکلے
یہ چاند گٹھڑی ہے اور اس میں بند ہے کوئی
میں جب بھی کھول کے دیکھوں ترا بدن نکلے
لپیٹ رات مری جاں سمیٹ کر زلفیں
تو مسکرا بھی کہ لب سے ترے کرن نکلے
حجاب ایسا کہ بادِ صبا سے شرمائے
شباب ایسا کہ پھولوں کا بانکپن نکلے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *