سہیلیو !
کبھی جو کوئی
چاہتوں ، محبتوں کے بارے تم سے پوچھ لے
ہر ایک پل گواہ ہے
کہ کس طرح ہمارے اجلے اجلے دل دعاؤں جیسی
چاندنی میں نکھری نکھری چاہتوں کے گیت سے
فرشتوں جیسی پریت سے بھرے رہے
ہر ایک پل گواہ ہے
نگہ اٹھی تو اس قدر حیا کی روشنی لئے
کہ آس پاس داغ داغ آنکھ بھی چمک اٹھی
زباں ہلی تو لفظ اپنی عظمتوں کو دیکھ کر
خود اپنے آپ دل میں سرخرو ہوئے
ہر ایک سوچ آیتوں کا ترجمہ بنی رہی
ہر ایک خواب روح سے نکل کے جیسے روح میں اتر گیا
سہیلیو !
کبھی جو زندگی میں کوئی چاہتوں ، محبتوں کے بارے تم سے پوچھ لے
تو تم ضرور عبادتوں کے بارے اس سے پوچھنا
فرحت عباس شاہ