مرا نصیب مسلسل ترے اثر میں رہا
مجھے گماں تھا کہ تُو چھوڑ جائے گا مجھ کو
مگر کہیں کوئی ایمان بھی نظر میں رہا
ترے لیے مجھے پیشانیاں تراشنی ہیں
یہ اک خیال ہمیشہ مرے ہنر میں رہا
ہمارے ساتھ ترا ہجر بھی ٹھہر سا گیا
ہمارے ساتھ ترا درد بھی سفر میں رہا
ترے لیے مجھے آوارگی بھلانا پڑی
میں ایک عمر بہت بے قرار گھر میں رہا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)