کبھی کچھ یاد آئے تو

کبھی کچھ یاد آئے تو
اذیت کی نگہداری
اگرچہ انتہائی مشک ہے
مگر اس قریہ قریہ منتشر دوری کے پردے پر
نجانے کب کہاں، کس نے کسی کو سونپ رکھی ہے عجب بے اختیاری ہے
سفر اپنی تہوں میں کیا چھپائے پھر رہا ہے
یہ سفر ہی جانتا ہے
ہم مسافر اپنے قدموں کی صفوں میں گم
رسائی سے ادھر کچھ جھانکنے لگتے
تو ویرانی بھی ہم کو گھر نظر آتی
ہمارے پاس دکھ تو ہیں مگر جاناں
ہمیں اپنے دکھوں کو دل سے بہلانے کا گُر شاید نہیں آتا
کہیں تو در کھلا رکھنے کی عادت میں
پرائی چاپ سے مضروب ہوتے ہیں
کہیں زخموں کی عادت میں کسک کھو بیٹھتے ہیں
اجنبیت کے کسی الزام سے منسوب ہوتے ہیں
اسے چھوڑو
میں اپنی بات کرتا ہوں
نگہداری اذیت کی تمہیں کب یاد ہوگی تم نے کس کو کب کہاں ذمے لگائی تھی
مگر یہ دل دراڑوں سے بھری دیوارِ دل
تختہ تمہاری آزمائش کا
مِری آنکھوں سے اب بھی جھانکنے لگتا ہے حیرت سے
یہ پنجرہ یہ نگہباں پاسداری کا
وریدوں میں لہو کی گردشیں بھی اس کو چبھتی ہیں
تمہیں آنا نہیں لیکن
کسی کو بھیج کر بازار کچھ قیدی پرندوں کو رہا کروا دیا کرنا
کبھی کچھ یاد آئے تو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *