ایک اذیت
دوسری اذیت سے جا ملی
دل اور ویران ہو گیا
اعتماد اور زخمی ہوا
شیشہ اور زیادہ چُور ہوا
کرچیاں اور زیادہ پھیل پھیل کے
دور دور تک چبھتی رہی
دلوں اور جذبوں کی باتیں کرنے والے
اتنے پتھریلے نکلیں گے
کبھی سوچا بھی نہ تھا
ظرف کے موازنے کرنے والے
اتنے کھوکھلے ہونگے
گمان ہی نہیں تھا
وضع داری
اور آ گہی، اور شعور کے قصے سنانے والے
اتنے ہی نیند زدہ لوگ ہیں
یقین ہی نہیں آتا
کتابوں اور لوگوں میں کتنا فرق ہوتا ہے
ایک عجیب اور حیران کر دینے والی بات
ایک زخم
اور ایک گہرا گھاؤ
لوگ
اور انہیں لوگوں کی لکھی ہوئی باتیں
سیاہ لوگ
اور سفیدی ملے حروف
چونا لگے الفاظ
اجلی مسکراہٹوں کے دھوکے سجائے
شفاف عبارتوں کا چکمہ دینے والے
مُردہ تخیّل
اور زندہ روشنائی
حریص افکار
اور بے غرض اَوراق
کتابوں اور لوگوں میں کتنا فرق ہوتا ہے
فرحت عباس شاہ