کتنی صدیوں سے تمنا ہے مگر
کوئی آغاز نہی ہو پاتا
ہر قدم برف کے گھیراؤ میں ہے
برف بوڑھی ہو تو ہو جاتی ہے پتھر کی طرح
منجمد، بے حس و حرکت، خاموش
کوئی آغاز نہیں ہو پاتا
بات پہلے ہی قدم کی ہے مگر
لاش پر کوئی قدم کون دھرے
کون نکالے پاؤں
لاش سے کیسے نکل سکتا ہے لاچار کوئی
اس تحرک کو بھی کچھ چاہیے خواہش سے سوا
کتنی صدیوں سے تمنا ہے مگر
کوئی ہمراز نہیں ہو پاتا
کوئی آگاز نہیں ہو پاتا
فرحت عباس شاہ