کچھ سنبھلتا ہوں تو تقدیر بدل جاتی ہے

کچھ سنبھلتا ہوں تو تقدیر بدل جاتی ہے
خواب سچا ہے پہ تعبیر بدل جاتی ہے
پچھلی بنیاد پہ تعمیر بدل جاتی ہے
شئے بدلتی نہیں تشہیر بدل جاتی ہے
خواب میں درد کھلا رہتا ہے البم کی طرح
اور خود آکے تو تصویر بدل جاتی ہے
قید خانہ بھی وہی رہتا ہے قیدی بھی وہی
ہاں یہ ہوتا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے
عشق میں پوری تو ہوتی ہیں دعائیں اکثر
ان میں لیکن کوئی تاثیر بدل جاتی ہے
حملہ آور تو بہت ہوتا ہے ہر مشکل کی
آن کی آن میں تدبیر بدل جاتی ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *