کچھ تو بولو

کچھ تو بولو
بولو مولا!
کیا ہم ہر اک آتی جاتی سانس کی دھار سے
پل پل کٹتی گردن دیکھ کے
نام نہاد سکھوں کے سائے
جی سکتے ہیں؟
آرزوؤں کی کالی رات میں
دل کے شہر پہ حملہ آور
کٹے پھٹے خوابوں کی آڑ میں
گھات لگائے بیٹھی موت اور بارش وار برستے خوف سے
اپنا آپ بچا سکتے ہیں
کیا اپنی پیشانی پر پتھر سے لکھا
ہر اک شے کے عارضی سچ کا
اَنمٹ جھوٹ چھپا سکتے ہیں؟
ہوا کے اک اک ذرے میں پوشیدہ
لاتعداد سراب اور لاتعداد فریب اتار کے جسموں میں
یا۔ بینائی میں چُبھ کے ٹوٹتی دھوپ سہار کے آنکھوں پر۔ کیا
تیرا کھوج لگا سکتے ہیں؟
بولو مولا!
کچھ تو بولو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *