کچھ گہرے گھاؤ بھی بھر جاتے ہیں لیکن

کچھ گہرے گھاؤ بھی بھر جاتے ہیں لیکن
ان راہوں میں کچھ زخم سمندر ہوتے ہیں
ہجر کے اندھے غار میں جاناں
حبس بہت ہے
اور محبت کی ناکامی
لے کے پھرتی ہے پر خار سہاروں میں
اور ہمارا دامن پھاڑتی پھرتی ہے
یوں گھر جانا بھی جرم ہوا
اب پہلے جیسی بات نہیں دیواروں میں
ہم بیماروں میں بھی تو پہلی سکت نہیں
یادوں کی پھانس سے سانس اٹکنے لگتی ہے
کیا بھید تھا جانے
نادانی کے لمحوں میں
خود بیت گئے لیکن وہ نقش جو انمٹ ہیں
وہ خواب سراب جو صحرا صحرا پھیل گئے
وہ تحریریں جو ورق ورق پر ثبت ہوئیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *