کر تو سکتے ہو تم مگر نہ کرو

کر تو سکتے ہو تم مگر نہ کرو
رات ہے رات میں سفر نہ کرو
اشک رہنے دو میرے شاملِ حال
میرے شعروں کو بے اثر نہ کرو
مت بسو میرے دل میں فرحت جی
اتنے ویران گھر میں گھر نہ کرو
جیسے بیگار ہو کوئی یارو
زندگی اس طرح بسر نہ کرو
ہے تعلق تو پھر تعلق ہے
درمیاں میں اگر مگر نہ کرو
دل پہ مت لو ہر ایک بات کا بوجھ
آنکھ بے وجہ اپنی تر نہ کرو
یہ بھی کردار ہے کہ بات کوئی
ہے ادھر کی تو پھر ادھر نہ کرو
میری عزت کرو دیانت سے
اس میں شامل کوئی بھی ڈر نہ کرو
میں ابھی پاک صاف ہوں یارو
میری جانب بُری نظر نہ کرو
اچھے لگتے ہو بات کرتے ہوئے
بات کو اتنا مختصر نہ کرو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *