اگر اعصاب میں طاقت نہیں ہے
در و دیوار تو کچے ہیں دل کے
مگر سیلاب میں طاقت نہیں ہے
مرے منہ پہ بھی کچھ بولیں کبھی تو
مرے احباب میں طاقت نہیں ہے
دلِ ویراں سے ہوتا ہے سبھی کچھ
دلِ سیراب میں طاقت نہیں ہے
ترا بچنا جوانمردی نہیں ہے
ابھی گرداب میں طاقت نہیں ہے
کسی کو ڈھونڈ کے لائے کہیں سے
شبِ بے تاب میں طاقت نہیں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)