یہ ہوا، یہ وقت بھی کب کسی کے ہوئے بھلا
یونہی بات بات میں ذکر آیا تھا عشق کا
وہ نہ جانے کیسے گھڑی تھی تب سے گئی نہیں
نہ جدا ہوئے ہو کبھی نہ ملتے ہو ٹھیک سے
تمہیں کس نے بخشی ہیں رات دن کی یہ عادتیں
یہ جو آسماں ہے کہیں کہیں سے چٹخ گیا
کسی بدنصیب کی بدعا تو نہیں لگی
تو تو برف جیسا رہا ہمیشہ سلوک میں
یہ ترے تپاک ملن سے پھیلی ہیں حیرتیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)