کئی طرح کے خرابات ہیں مرے اندر
یہ پانی چھوڑ گئے کون دل کے پچھواڑے
یہ کون مائل برسات ہیں مرے اندر
نہ کوئی صبح نہ دوپہر ہے نہ شام کوئی
عجب تھکے ہوئے دن رات ہیں مرے اندر
تمہاری اور ہی وقعت ہے میرے دیوانے
تمہارے اور ہی درجات ہیں مرے اندر
ترے کلام کا پھیلاؤ ہے مرے ہر سو
تری کتاب کے صفحات ہیں مرے اندر
جگہ جگہ پہ کئی بستیاں ہیں اجڑی ہوئی
کئی زمانوں کے صدمات ہیں مرے اندر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)