کسی کا کیا پتہ، ہم کیسے ہیں

کسی کا کیا پتہ، ہم کیسے ہیں
کسی کو کیا پتہ
ہم کیسے ہیں
ہم ایسے ہی ہیں
جیسے، جلا ہوا وجود
جیسے تازہ زخم
جیسے دکھا ہوا دل
جو ہوا سے بھی دکھ جائے
اور شبنم سے بھی
ہم نے بلانا چایا
کوئی آیا نہیں
ہم نے لوٹانا چاہا
کوئی لوٹا نہیں
ہم نے تلاش کرنا چاہا
کوئی ملا نہیں
ہم نے گُم کرنا چاہا
کوئی ہوا نہیں
کسی کو کیا پتہ
ہم کیسے ہیں
ہم ایسے ہی ہیں
جیسے کوئی خالی لوٹائی گئی دعا
جیسے کوئی بے منزل مسافر
کسی کو کیا پتہ
ہم تو قیدی ہیں
ایسے قیدی
جن کے وجود آزاد ہوں
تو روحیں قید ہو جائیں
جو آزادی کے خواب بھی دیکھیں
تو ہر طرف زنجیریں جھنجھنا اٹھیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *