کسی کائنات کا گیند ہے
مرے سر پہ گھوم رہا ہے خبطِ خیال سے
ہے پڑی ہوئی
اسی کائنات کے دل میں وقت کی ہتھکڑی
مرے پاؤں میں کسی ان کہی، کسی ناگہانی کی بیڑیاں ہیں قدم قدم
کبھی سر پھسلتا ہے گیند سے
کبھی پاؤں رکتے ہیں بیڑیوں کی گرفت میں
کہیں جیل خانے ہیں رات دن کے بنے ہوئے
کہیں صبح شام کے فیصلے ہیں جڑے ہوئے
کسی کائنات کا گیند
گیند پہ سر
سروں پہ خلا
خلاؤں پہ بوجھ ہے
کسی اور اس سے بڑی فنا کا ملال بھی ہے دھرا ہوا
کسی اور گیند سے آگے خبطِ خیال بھی ہے دھرا ہوا
کوئی چھُو کے دیکھے تو چونک اُٹھے وبال سے
کوئی چھو کے دیکھے گا کس طرح
کوئی کیسے نکلے گا جال سے
کوئی چپ ہے جال کے اِس طرف
کوئی اُس طرف سے بھی بولتا ہے وبال سے
یہ خلا، یہ گیند، یہ کائنات کمال ہے
کبھی عقل باندھ کے لے گیا کوئی راستہ
کبھی سوچ کاٹ کے رکھ گیا کوئی واسطہ
کبھی گیند گرتا ہے آنکھ پر
کبھی آنکھ گرتی ہے گیند پر
مگر ہر طرح سے شکست کھاتی ہے آنکھ ہی
فرحت عباس شاہ